جو چل سکو تو کوئی ایسی چال چل جانا
جو چل سکو تو کوئی ایسی چال چل جانا |
مجھے گماں بھی نہ ہو اور تم بدل جانا |
یہ شعلگی ہو بدن کی تو کیا کیا جائے |
سو لازمی تھا ترے پیرہن کا جل جانا |
تمہیں کرو کوئی درماں ، یہ وقت آپہنچا |
کہ اب تو چارہ گروں کو بھی ہاتھ مل جانا |
ابھی ابھی تو جدائی کی شام آئی تھی |
ہمیں عجیب لگا زندگی کا ڈھل جانا |
سجی سجائی ہوئی موت زندگی تو نہیں |
مورخوں نے مقابر کو بھی محل جانا |
یہ کیا کہ تو بھی اسی ساعتِ زوال میں ہے |
کہ جس طرح ہے سبھی سورجوں کو ڈھل جانا |
ہر ایک عشق کے بعد اور اس کے عشق کے بعد |
فراز اتنا بھی آساں نہ تھا سنبھل جانا |
شاعر کا نام : احمد فراز
پیشکش : شعبہ تحریرو پیشکش تبیان