• صارفین کی تعداد :
  • 9241
  • 10/7/2016
  • تاريخ :

غدیر کے بعد عاشورا کیوں؟ ( حصّہ دوّم )

محرم

واضح ہے کہ کفار اور مخالف لوگ، فتح مکہ میں سب تسلیم ہو گئے اور ایمان لائے تھے اور مذکورہ آیت جو شر سے محفوظ رکھنے کی خبر دے رہی ہے، فتح مکہ کے بعد نازل ہوئی ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ میں فاتحانہ داخل ہوئے اور سب لوگ تسلیم ہو گئے تھے اور جزیرۃ العرب میں کوئی شخص نہیں تھا جو آپ کے سامنے قیام کر سکے، لہذا آپ کا خوف کس وجہ سے تھا؟ مرحوم علامہ طباطبائی فرماتے ہیں: رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جو مشکل درپیش تھی، یہی منافقین کا مسئلہ تھا کہ کہیں مخالفت نہ کریں، لہذا خداوند متعال نے فرمایا: "وَاللَّـهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ".
یہ جو کفار ناامید ہو گئے، ان کی ناامیدی یہ تھی کہ جب پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف ان کے الزام، جنگ اور قتل کی کوششیں ناکام ہو گئیں تو انہیں صرف آنحضرت کی وفات پر امید تھی کہ جب آپ کا انتقال ہو گا تو وہ خلافت و حکومت کو اپنے قبضہ میں لے لیں گے، لیکن یہ لوگ حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) کی ولایت کا اعلان سن کر ناامید ہو گئے۔ ان کی ناامیدی کی وجہ یہ تھی کہ امیرالمومنین (علیہ السلام) کے منصوب ہونے سے دین کا ولی اور سرپرست مقرر ہو گیا۔ وہ لوگ حضرت علی (علیہ السلام) کے علم، تقوا، عبادت، عدالت، شجاعت اور عصمت سے واقف تھے، ان کی سب امیدوں کو اس بات نے ناامیدی میں بدل دیا کہ ایسے ولی اور سرپرست کو لوگوں پر دینی اور سیاسی سربراہی کے لئے مقرر کر دیا گیا ہے جو "معصوم" ہے اور اس معصوم سرپرست کے بعد بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلیفے اور جانشین گیارہ معصوم ہستیاں ہیں جو سب، پہلے خلیفہ یعنی علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) کی نسل میں سے ہیں۔
ان منافقوں نے ہمیشہ اپنی کوششیں جاری رکھیں تاکہ اللہ کے نور کو بجھا دیں، لیکن چونکہ خالق کائنات کا اٹل فیصلہ ہے کہ پروردگار کا آفتاب حجت اور نور الہی ہرگز نہیں بجھ سکتا تو خلافت کو غصب کرنے والوں نے اپنے ناپاک عزائم تک پہنچنے کے لئے دو ہی راستے پائے: یا آفتاب کو خاموشی کے قیدخانہ میں قید کردیا جائے یا لوگوں کی آنکھوں اور دل کو بند کر دیا جائے تاکہ آفتاب کے نور کو نہ دیکھنے پائیں! ( جاری ہے )