اقبال کي اُردو غزلوں ميں رديف کا استعمال کي اہميت (حصّہ سوّم)
بانگ درا ميں شامل کلام کا يہ حصہ اقبال کے قيام يورپ کے زمانے 1905- 1908 تک کا ہے اس دوران ميں اقبال کي توجہ زيادہ تر نظموں کي طرف رہي- يہ سات غزليں اس قيام کي يادگار ہيں ان کے فکري و فني اوصاف سے قطع نظر رديفوں کے حوالے سے اس حصہ غزل ميں ايک پانچ لفظي رديف قابل توجہ ہے- پورا مطلع يوں ہے
زندگي انساں کي اک دم کے سوا کچھ بھي نہيں
دم ہوا کي موج ہے، رم کے سوا کچھ بھي نہيں
* اس طويل رديف کا قبال نے غم، محرم اور زمزم کے قوافي کے ساتھ خوبصورتي سے نبھايا ہے "بانگِ درا" کے تيسرے حصہ ميں غزليات کي تعداد 8 ہے جس ميں رديفوں کا نقشہ يوں ہے-
يہ سرود قُمري و بلبل فريب گوش ہے
*
رديف: ہے
نالہ ہے بلبلِ شوريدہ ترا خام ابھي
*
رديف: ابھي
پردہ چہرے سے اُٹھا، انجمن آرائي کر
*
رديف: کر
پھر باد بہار آئي، اقبال غزل خواں ہو
*
رديف: ہو
کبھي اے حقيقتِ منتظر! آ لباسِ مجاز ميں
*
رديف: ميں
جو فغاں دلوں ميں تڑپ رہي تھي، نوائے زير لب رہي
*
رديف: رہي
قلب کو ليکن ذرا آزاد رکھ
*
رديف: رکھ
دو لفظي رديف
قبضے سے امت بے چاري کے ديں بھي گيا، دنيا بھي گئي
*
رديف: بھي گئي
جاری ہے
تحریر: رابعہ سرفراز
متعلقہ تحريريں :
مياں محمد بخش، صوفي شاعر
ستارہ پيار کا پہلا شہر (حصّہ ششم)
منير نيازي
تلفظ اور املا