11
جس نے کسی مال کو بطور قرضہ حاصل کیاہے۔ اگر وہ بعینہ موجود ہو اور قرض خواہ اس مال کا مطالبہ کرے تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ مقروض اسی مال کو بعینہ واپسی کردے۔
|
12
جب کوئی شخص اس شرط پر قرض دے کہ وہ اس سے زیادہ مقدار لے گا مثلاً ایک من گندم کے دینے کے وقت شرط کرے کہ ایک من پانچ سیر دے یا مرغی کے دس انڈے دے کر گیارہ انڈے لینے کی شرط کرے تو یہ سود اور حرام ہے بلکہ اگر قرض دینے میں شرط کرے کہ مقروض اسکا کوئی کام انجام دے یا جو جنس لی ہے اس کے علاوہ کوئی اور چیز بھی اس کے ساتھ دے مثلا ً شرط کرے کہ ایک روپیہ دوں گا اور ایک روپیہ اور ایک ماچس لوں گا تو یہ سود اور حرام ہے بلکہ اگر یہ شرط کرے جو جنس اس نے دی ہے اسے ایک خاص کیفیت سے واپس کردے مثلاً سونا قرض دیا ہو اور اس کے ساتھ یہ شرط کرے کہ اس کا زیور بنا کر واپس کرنا تو پھر بھی یہ سود اور حرام ہے۔ ہاں اگر قرض دینے کے وقت اس کے ساتھ کوئی شرط نہ کرے لیکن مقروض کچھ مقدار زیادہ واپس کردے تو اس میں کوئی حرج نہیں بلکہ یہ مستحب بھی ہے۔
|
13
سود دینا سود لینے کی طرح حرام ہے جس شخص نے سود والا قرض لیا ہو وہ اس کا مالک نہیں ہوتا اور اس میں تصرف نہیں کرسکتا ہاں اگر اس طرح ہو کہ اگر ان کے درمیان سود کی قرار داد بھی نہ ہوتی تب بھی مالک اس بات پر راضی تھا کہ قرض لینے والا اس میں تصرف کرے تو پھر صحیح ہے۔
|
14
اگر گندم و غیرہ کو سود پر قرض لے اور اس سے زراعت کرے تو پھر جو فصل ہاتھ آئے وہ قرض والے کی ملک ہے۔
|
15
اگر کوئی شخص لباس خرید لے لیکن بعد میں اس کی قیمت ان پیسوں سے دیگا جو سود پر سے تھے، یا حلال پیسے سے جو کہ سود سے ملا ہوا ہے ادا کرے تو اگر لباس کے خریدنے کے وقت اس کی نیت یہ تھی کہ اسی پیسے سے دوں گا تو اس لباس کے پہننے اور اس میں نماز پڑھنے میں اشکال ہے اور اسی طرح اگر اس کے پاس سود کا پیسہ ہو یا حلا ل مال جو حرام سے ملا ہوا ہے موجود ہو اور بیچنے والے سے کہہ دے کہ میں یہ لباس اسی پیسے سے لوں گا تواس لباس کا پہننا حرام اور اگر اسے معلوم ہو کہ اس لباس کا پہننا حرام ہے تو اس میں نماز پڑھنا بھی باطل ہے۔
|
16
اگر کچھ روپیہ انسان کسی تاجر کو دے کہ وہ دوسرے شہر میں اس سے کم واپس لے گا تو اس میں کوئی اشکال نہیں اوراس کو صرف برآت کہتے ہیں۔
|
17
جب کچھ مقدار روپیہ کسی کو دے کہ چند دن کے بعد وہ کسی دوسرے شہر میں اس سے زیادہ واپس لے گا مثلاً نو سو نوے روپے اس شرط پر دے کہ دس دن کے بعد دوسرے شہر میں ایک ہزار روپیہ لوں گا۔ یہ تو سود اور حرام ہے ۔ ہاں اگر زیادہ لینے والا اس زیادہ مقدار کے مقابل میں کوئی جنس دے یا کوئی کام بجالائے تو اس میں اشکال نہیں۔
|